علم کی حدود کو پہچان کر کامیاب انتظام کی حیران کن راہیں کھولیں

webmaster

A diverse team in a collaborative office setting. A leader, appearing thoughtful and open, is engaging with the team, gesturing to encourage discussion and input. Team members are actively participating, their faces showing confidence and mutual respect. The atmosphere is one of shared problem-solving and empowerment, with a subtle aura of emerging ideas. Professional, inviting lighting.

میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں یہ بات بارہا محسوس کی ہے کہ جب ہم کسی چیز کے بارے میں مکمل جانکاری کا دعویٰ کرتے ہیں، تو اکثر وہیں سے غلطیاں شروع ہوتی ہیں۔ حقیقی کامیابی کا راز اس میں نہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں، بلکہ اس میں ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ہماری معلومات کی بھی ایک حد ہے۔ آج کے تیز رفتار ڈیجیٹل دور میں، جہاں ہر روز نئی ٹیکنالوجیز اور تصورات سامنے آ رہے ہیں، معلومات کا سمندر اتنا وسیع ہے کہ کسی ایک شخص کا اس سب پر عبور حاصل کرنا ناممکن ہے۔ GPT جیسے جدید ٹولز نے ہمیں یہ دکھایا ہے کہ انسانی علم کی حدود کو تسلیم کرنا کتنا ضروری ہے، کیونکہ جب ہم اپنی کمیوں کو پہچانتے ہیں تو نئے راستے کھلتے ہیں۔ بہت سے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ جاننا ان کی قابلیت کی نشانی ہے، مگر میرا ماننا ہے کہ سچے لیڈر وہ ہوتے ہیں جو اپنی نادانی کو گلے لگاتے ہیں اور اسے سیکھنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ یہ صرف عاجزی نہیں، بلکہ ایک اسمارٹ انتظامی حکمت عملی ہے۔ جب آپ یہ جان لیتے ہیں کہ آپ کو سب کچھ معلوم نہیں ہے، تو آپ سوال پوچھنے، مشورہ لینے اور ٹیم کے ہر فرد کی رائے کو اہمیت دینے کے لیے زیادہ کھلے ہوتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے کامیاب فیصلے جنم لیتے ہیں اور کاروبار نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ آئیے اس بارے میں صحیح طور پر جاننے کی کوشش کریں گے۔

یہ صرف عاجزی نہیں، بلکہ ایک اسمارٹ انتظامی حکمت عملی ہے۔ جب آپ یہ جان لیتے ہیں کہ آپ کو سب کچھ معلوم نہیں ہے، تو آپ سوال پوچھنے، مشورہ لینے اور ٹیم کے ہر فرد کی رائے کو اہمیت دینے کے لیے زیادہ کھلے ہوتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے کامیاب فیصلے جنم لیتے ہیں اور کاروبار نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ آئیے اس بارے میں صحیح طور پر جاننے کی کوشش کریں گے۔

علم کی حدود کا اعتراف: ایک حقیقی رہنما کی پہچان

علم - 이미지 1

1. حقیقی طاقت خود آگاہی میں پنہاں ہے

ہم میں سے اکثر لوگ اپنی زندگی میں یہ غلط فہمی پالتے ہیں کہ اگر ہم نے کوئی بات مان لی کہ ہمیں کسی چیز کا علم نہیں ہے، تو ہماری اتھارٹی یا ہمارا مقام کم ہو جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جو میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز میں بھی کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے ایک کمپنی میں منیجر کی پوزیشن سنبھالی تھی، تو میرا پہلا خیال یہی تھا کہ مجھے سب کچھ جاننا ہوگا، ورنہ لوگ میری عزت نہیں کریں گے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ جب میں نے ٹیم کے سامنے اپنی کسی کمزوری یا کسی ایسے شعبے کا اعتراف کیا جس میں مجھے مزید سیکھنے کی ضرورت تھی، تو اس سے میرا رشتہ اپنی ٹیم کے ساتھ اور بھی مضبوط ہوا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ میں بھی ان جیسا ہی ایک انسان ہوں، جو سیکھنے کے عمل میں ہے، اور اس سے ان کا اعتماد میرے اوپر مزید بڑھ گیا۔ یہ ایک عجیب سی بات ہے، مگر جب آپ اپنی حدود کو پہچانتے ہیں تو لوگ آپ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف آپ کا اپنا بوجھ ہلکا ہوتا ہے، بلکہ پوری ٹیم ایک مقصد کے تحت کام کرنا شروع کر دیتی ہے جہاں ہر فرد اپنی رائے دینے میں آزاد محسوس کرتا ہے۔

2. غلطیوں سے سیکھنے کا فلسفہ

زندگی میں غلطیاں کرنا کوئی بری بات نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان غلطیوں سے سیکھتے نہیں ہیں۔ جب آپ یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ آپ کو ہر چیز کا حتمی جواب نہیں معلوم، تو آپ غیر یقینی صورتحال میں بھی خود کو زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، سب سے کامیاب منصوبے وہ ہوتے ہیں جہاں ٹیم کے رہنما یہ مانتے ہیں کہ غلطیاں ہوں گی اور انہیں سیکھنے کے مواقع کے طور پر دیکھا جائے گا۔ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ جب کوئی منصوبہ اپنے ابتدائی مراحل میں ناکامی کا شکار ہوتا ہے، تو لیڈر اگر اس ناکامی کو ذاتی کمزوری کے بجائے ایک سیکھنے کا موقع سمجھے، تو وہ ٹیم کو دوبارہ حوصلہ دے کر بہتر نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ یہ رویہ صرف کہنے کی حد تک نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے عملی طور پر ٹیم کے سامنے ظاہر کرنا ضروری ہے۔ جب آپ اپنی کسی سابقہ غلطی کو کھل کر بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آپ نے اس سے کیا سیکھا، تو آپ کی ٹیم بھی اپنی غلطیوں کو چھپانے کے بجائے ان کا سامنا کرنے اور ان سے سبق سیکھنے کی ہمت پیدا کرتی ہے۔

مسائل کا تخلیقی حل اور ٹیم کا فعال کردار

1. جدید چیلنجز کا غیر روایتی سامنا

آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں، جہاں ہر لمحے نئی ٹیکنالوجی اور نئے چیلنجز سامنے آ رہے ہیں، کسی ایک فرد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہر مسئلے کا حل جانتا ہو۔ میں نے خود اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ اکثر اوقات سب سے بہترین اور تخلیقی حل اس وقت سامنے آتے ہیں جب رہنما اپنی ٹیم کو کھل کر یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں۔ جب آپ یہ کہہ دیتے ہیں کہ “مجھے اس بارے میں آپ کی رائے کی ضرورت ہے کیونکہ میرے پاس اس کا حتمی جواب نہیں،” تو ٹیم کے ہر فرد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور ان کی قدر کی جا رہی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب روایتی سوچ کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں اور غیر روایتی، لیکن مؤثر حل سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک بار ہمارے پاس ایک ایسا سافٹ ویئر بگ تھا جس کا حل کسی کو نہیں مل رہا تھا۔ میں نے ٹیم کے تمام اراکین کو ایک میٹنگ میں بلایا اور یہ اعتراف کیا کہ میں اس مسئلے کا حل نہیں جانتا۔ اس کے بعد جو طوفانِ ذہنیت شروع ہوا، اس میں ایک جونیئر ڈویلپر نے ایسا حل پیش کیا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ تب ہی ممکن ہوا جب میں نے اپنی حدود کا اعتراف کیا۔

2. فیصلہ سازی میں اجتماعی ذہانت کا استعمال

جب ایک لیڈر یہ مان لیتا ہے کہ وہ تمام معلومات کا مرکز نہیں ہے، تو وہ فیصلہ سازی کے عمل کو مزید جمہوری بناتا ہے۔ اس سے ٹیم کی اجتماعی ذہانت (Collective Intelligence) کو بروئے کار لانے کا موقع ملتا ہے۔ میرے اپنے تجربے میں، سب سے پائیدار اور کامیاب فیصلے وہ رہے ہیں جن میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی رائے کو شامل کیا گیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بریانی بنانے میں ہر مصالحہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آپ صرف ایک مصالحے پر انحصار کریں گے، تو ذائقہ کبھی مکمل نہیں ہوگا۔ اسی طرح، جب ایک فیصلہ کرنے سے پہلے آپ مختلف نقطہ نظر کو سنتے ہیں، سوالات کرتے ہیں اور پھر ان سب کو یکجا کر کے فیصلہ کرتے ہیں، تو اس فیصلے میں غلطی کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔ میں نے کئی کاروباری سربراہان کو دیکھا ہے جو سمجھتے ہیں کہ انہیں سب کچھ خود کرنا ہے، اور آخر کار وہ نہ صرف خود کو تھکا دیتے ہیں بلکہ ان کے فیصلے بھی اتنے مؤثر نہیں ہوتے جتنے ایک ایسی ٹیم کے ہوتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنی معلومات شیئر کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔

قیادت کی لچک اور موافقت کی نئی جہتیں

1. بدلتے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت

ڈیجیٹل دور کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ حالات مسلسل بدل رہے ہیں۔ آج جو ٹیکنالوجی سب سے آگے ہے، کل وہ پرانی ہو سکتی ہے۔ ایسے میں، ایک رہنما کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لچکدار ہو اور نئی معلومات کو قبول کرنے کے لیے تیار رہے۔ جب آپ یہ مانتے ہیں کہ آپ کو ہر چیز نہیں معلوم، تو آپ نئے آئیڈیاز اور نئی حکمت عملیوں کو اپنانے کے لیے زیادہ کھلے ہوتے ہیں۔ میرے اپنے شعبے میں میں نے بارہا دیکھا ہے کہ جو کمپنیاں اپنی روایتی سوچ پر قائم رہیں اور نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے سے ہچکچائیں، وہ بہت پیچھے رہ گئیں۔ اس کے برعکس، جن کمپنیوں کے لیڈران نے کھلے دل سے اپنی حدود کا اعتراف کیا اور ماہرین کی رائے کو قبول کیا، انہوں نے نہ صرف خود کو محفوظ رکھا بلکہ مزید ترقی بھی کی۔ یہ محض ایک نظریاتی بات نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عملی حقیقت ہے جو آج کے کاروباری منظر نامے میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

2. اعتماد اور باہمی تعاون کی آبیاری

ایک رہنما جو اپنی حدود کو تسلیم کرتا ہے، وہ اپنی ٹیم میں ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں اعتماد اور باہمی تعاون پھلتا پھولتا ہے۔ جب آپ یہ کہہ دیتے ہیں کہ “میں یہ کام اکیلے نہیں کر سکتا، مجھے آپ سب کی مدد چاہیے،” تو آپ اپنی ٹیم کو یہ سگنل دیتے ہیں کہ آپ ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ خود اعتمادی اور باہمی احترام کا ایک مضبوط بندھن قائم کرتا ہے۔ میرے نزدیک، ایک کامیاب ٹیم وہی ہوتی ہے جہاں ہر فرد کو یہ محسوس ہو کہ اس کی رائے کی قدر کی جاتی ہے اور اس کا کردار اہم ہے۔ اس طرح کے ماحول میں، لوگ زیادہ ذمہ داری کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لیڈران جن میں یہ خصوصیت ہوتی ہے، ان کی ٹیم نہ صرف مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، بلکہ بہترین نتائج بھی دیتی ہے کیونکہ ہر فرد ایک مشترکہ مقصد کے لیے کام کر رہا ہوتا ہے۔

مختلف قیادت کے انداز اور ان کے اثرات

قیادت کا انداز خود کے بارے میں نقطہ نظر ٹیم پر اثر نتیجہ
ہر بات کا جانکار (Omniscient Leader) ہر مسئلے کا حل جانتا ہوں، میری رائے حتمی ہے۔ ٹیم کی تخلیقی صلاحیتوں کو دباتا ہے، اعتماد کی کمی۔ جمود، کم جدت، کم کامیابی۔
حدود کا اعتراف کرنے والا (Acknowledging Leader) مجھے سیکھنے کی ضرورت ہے، ٹیم سے مشورہ لیتا ہوں۔ ٹیم کی حوصلہ افزائی، اعتماد میں اضافہ، بہترین تعاون۔ مسلسل ترقی، زیادہ جدت، پائیدار کامیابی۔

اختراعی سوچ اور مستقل ترقی کا راستہ

1. مسلسل سیکھنے کی ثقافت کا فروغ

جب آپ اپنی معلومات کی کمی کو تسلیم کرتے ہیں تو آپ سیکھنے کے لیے زیادہ تیار رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک رہنما کے طور پر، جب آپ خود سیکھنے کے عمل میں شامل ہوتے ہیں اور اسے اپنی ٹیم کے سامنے ظاہر کرتے ہیں، تو آپ ایک ایسی ثقافت کو فروغ دیتے ہیں جہاں ہر کوئی کچھ نیا سیکھنے کے لیے پرجوش ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک پروجیکٹ میں، مجھے ایک نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں بہت کم معلومات تھی۔ میں نے اسے تسلیم کیا اور اپنی ٹیم کے جونیئر ممبرز سے کہا کہ وہ مجھے سکھائیں۔ یہ نہ صرف میرے لیے سیکھنے کا ایک بہترین موقع تھا، بلکہ اس سے ٹیم میں یہ پیغام بھی گیا کہ علم کسی بھی سطح پر کسی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے بھی اپنے علم کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا شروع کیا۔ یہ ایک ایسا مثبت دائرہ ہے جو تنظیم کی مجموعی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

2. طویل المدتی کامیابی کی بنیاد

حقیقت پسندی اور اپنی حدود کا اعتراف صرف وقتی فائدے نہیں دیتا، بلکہ یہ طویل المدتی کامیابی کی بنیاد رکھتا ہے۔ جب آپ اپنی کمزوریوں کو جانتے ہیں، تو آپ انہیں دور کرنے کے لیے فعال اقدامات کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کو غیر ضروری خطرات مول لینے سے بچاتا ہے اور آپ کو اپنی حکمت عملی کو زیادہ حقیقت پسندانہ طریقے سے ترتیب دینے میں مدد کرتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جو کاروباری ادارے اپنی خود فہمی اور جھوٹے غرور میں مبتلا رہتے ہیں، وہ اکثر مشکل وقت میں بکھر جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو ادارے اور ان کے لیڈران اپنی صلاحیتوں اور کمزوریوں کو حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھتے ہیں، وہ ہر قسم کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ انہیں نہ صرف زندہ رہنے میں مدد دیتا ہے، بلکہ انہیں مارکیٹ میں ایک مضبوط اور قابل بھروسہ مقام بھی دیتا ہے۔

ڈیجیٹل دور میں نامعلوم کو گلے لگانا

1. غیر یقینی صورتحال میں استحکام

آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں تبدیلی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ کچھ بھی یقینی نہیں ہے، علم کی حدود کو تسلیم کرنا استحکام کا واحد ذریعہ ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کل کیا ہونے والا ہے، ہم سب نہیں جانتے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں، ایک رہنما کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نامعلوم کو گلے لگا سکے اور اس کے ساتھ کام کر سکے۔ جب آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کو ہر چیز معلوم نہیں ہے، تو آپ نئے تصورات، نئے نظریات اور نئے طریقوں کو آزمانے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔ میں نے خود یہ محسوس کیا ہے کہ جو لیڈران ہر وقت “میں جانتا ہوں” کے موڈ میں رہتے ہیں، وہ تبدیلی کو مزاحمت کرتے ہیں اور بالآخر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو “مجھے سیکھنا ہے” کے رویے کو اپناتے ہیں، وہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنی ٹیم اور اپنے کاروبار کو بھی مستقبل کے لیے تیار کرتے ہیں۔

2. تخلیقی ذہانت اور لچکدار سوچ

ایک رہنما جو اپنی حدود کو پہچانتا ہے، وہ دوسروں کی تخلیقی ذہانت کو بھی بروئے کار لاتا ہے۔ یہ انہیں لچکدار سوچ اپنانے میں مدد دیتا ہے اور انہیں غیر متوقع حالات میں بھی بہترین حل تلاش کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ میں نے کئی بار یہ دیکھا ہے کہ جب کوئی مشکل صورتحال پیش آتی ہے، تو وہ لیڈران جو اپنی ٹیم پر بھروسہ کرتے ہیں اور انہیں کھل کر سوچنے کا موقع دیتے ہیں، وہ حیرت انگیز نتائج حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لیڈر ہر چیز پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنی ٹیم کی بہترین صلاحیتوں کو استعمال نہیں کر پاتے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے لیڈروں کے ساتھ کام کرنا زیادہ پسند ہے جو مجھے سوال کرنے اور اپنی رائے دینے کی آزادی دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ جو مجھے صرف ان کے بنائے ہوئے راستے پر چلنے کا حکم دیں۔ یہ آزادی ہی دراصل حقیقی جدت کی بنیاد بنتی ہے۔

اختتامیہ

ہم نے دیکھا کہ اپنی حدود کا اعتراف کرنا صرف عاجزی نہیں، بلکہ قیادت کی ایک طاقتور حکمت عملی ہے۔ جب ایک رہنما یہ تسلیم کرتا ہے کہ اسے سب کچھ معلوم نہیں ہے، تو وہ نہ صرف خود کو سیکھنے کے نئے مواقع دیتا ہے بلکہ اپنی ٹیم میں اعتماد، تعاون اور جدت کی روح بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ رویہ آج کے تیزی سے بدلتے ہوئے ڈیجیٹل دور میں نہ صرف بقا کے لیے ضروری ہے بلکہ کامیابی اور پائیدار ترقی کی ضمانت بھی ہے۔ یاد رکھیے، حقیقی طاقت یہ جاننے میں ہے کہ آپ کو کیا معلوم نہیں اور پھر اسے سیکھنے کے لیے تیار رہنا۔

مفید معلومات

1. جب آپ اپنی معلومات کی کمی کو تسلیم کرتے ہیں تو ٹیم کے ممبران آپ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور وہ اپنی رائے کھل کر بیان کرنے میں آزاد محسوس کرتے ہیں۔

2. یہ عمل ٹیم کی اجتماعی ذہانت (Collective Intelligence) کو بروئے کار لاتا ہے، جس سے بہتر اور تخلیقی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔

3. اپنی حدود کو پہچاننا مسلسل سیکھنے کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے، جو تنظیم کی مجموعی ترقی کے لیے لازمی ہے۔

4. یہ لیڈر کو لچکدار اور موافقت پذیر بناتا ہے، تاکہ وہ غیر یقینی صورتحال میں بھی مضبوطی سے کھڑا رہ سکے۔

5. طویل المدتی کامیابی اور اختراعی سوچ کے لیے یہ رویہ انتہائی اہم ہے، کیونکہ یہ غیر ضروری خطرات سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔

اہم نکات کا خلاصہ

اپنے علم کی حدود کو تسلیم کرنا لیڈرشپ کی سب سے بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے۔ یہ اعتماد کو بڑھاتا ہے، اجتماعی ذہانت کو پروان چڑھاتا ہے، مستقل سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور ایک ایسے ماحول کی بنیاد رکھتا ہے جہاں جدت اور پائیدار کامیابی ممکن ہو سکے۔ ایک لیڈر کے طور پر، آپ کا “مجھے معلوم نہیں” کا اعتراف ہی آپ کی ٹیم کو “ہمیں مل کر معلوم کریں گے” کی طرف راغب کرتا ہے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: آج کے اس تیز رفتار ڈیجیٹل دور میں، جہاں ہر لمحہ نئی معلومات اور ٹیکنالوجیز سامنے آ رہی ہیں، اپنے علم کی حدود کو تسلیم کرنا اتنا اہم کیوں ہو گیا ہے؟

ج: دیکھو بھائی، یہ بات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور خود بھی محسوس کی ہے کہ جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے سب کچھ آتا ہے، تو وہیں سے اس کی ترقی رک جاتی ہے۔ آج کل معلومات کا سیلاب ایسا ہے کہ کوئی ایک بندہ سارے سمندر کو کیسے عبور کر سکتا ہے؟ میری اپنی زندگی کا تجربہ ہے، جب میں کسی مسئلے پر اٹکا اور یہ مان لیا کہ مجھے اس کا جواب نہیں آتا، تو میرے دماغ کے بند دروازے کھل گئے اور میں نے دوسروں سے پوچھنا شروع کیا، نئی چیزیں سیکھیں اور پھر مسئلہ حل ہو گیا۔ یہ صرف عاجزی نہیں، بلکہ حقیقت پسندی ہے کہ ہم ہر چیز کے ماہر نہیں ہو سکتے۔ جب ہم اپنی کمزوری کو تسلیم کرتے ہیں، تبھی سیکھنے اور بہتر بننے کی گنجائش نکلتی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کسی نئی جگہ جاتے ہوئے نقشہ دیکھ کر یہ مان لینا کہ آپ کو راستہ نہیں معلوم، تبھی آپ منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔

س: اکثر لیڈرز یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ جاننا ان کی قابلیت کی نشانی ہے، تو پھر آپ کے خیال میں ایک “سچا لیڈر” اپنی نادانی کو کیسے گلے لگاتا ہے اور اسے سیکھنے کا موقع کیسے بناتا ہے؟

ج: یہ سوال اکثر میرے ذہن میں آتا ہے۔ جو لیڈر یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اسے ہر بات معلوم ہے، وہ دراصل اپنی ٹیم کو سوال پوچھنے اور اپنی رائے دینے سے روک دیتا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ سچے لیڈر وہ ہوتے ہیں جو یہ کہنے سے نہیں ہچکچاتے کہ “اس معاملے پر مجھے مزید معلومات چاہیے” یا “آؤ، اس مسئلے کو مل کر حل کرتے ہیں”۔ یہ کوئی کمزوری نہیں، بلکہ یہ لیڈرشپ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جب ایک لیڈر یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے علم کی بھی ایک حد ہے، تو وہ اپنی ٹیم کو بااختیار بناتا ہے، ہر فرد کی سوچ اور تجربے کی قدر کرتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے، جب میں نے کسی مشکل فیصلے میں اپنی ٹیم سے رائے مانگی اور ان کی بات سنی، تو ایسے حل نکلے جو میں اکیلا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ صرف عاجزی نہیں، یہ ایک زبردست حکمتِ عملی ہے جو ٹیم کو اکٹھا کرتی ہے اور بہترین نتائج دیتی ہے۔

س: اپنے علم کی حدود کو تسلیم کرنے کا یہ طریقہ کار عملی طور پر کاروباری کامیابی اور ذاتی ترقی میں کس طرح مددگار ثابت ہوتا ہے؟ اس سے ہمیں کیا ٹھوس فوائد حاصل ہوتے ہیں؟

ج: اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ جمود کا شکار نہیں ہوتے۔ جب آپ یہ مان لیتے ہیں کہ آپ کو سب کچھ نہیں پتا، تو آپ نئے آئیڈیاز، نئے طریقوں اور نئی سوچ کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کاروباری دنیا میں تو یہ سونے کی چابی ہے۔ میری ایک دوست کی مثال ہے، وہ اپنے کاروبار میں ایک خاص پروڈکٹ کے بارے میں بہت پر اعتماد تھی کہ اسے سب معلوم ہے، لیکن جب اس نے اپنی ٹیم اور کسٹمرز سے فیڈ بیک لیا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے اپنی پروڈکٹ میں تبدیلی کی اور آج وہ پروڈکٹ مارکیٹ میں سب سے آگے ہے۔ یہ سیکھنا کہ “میں نہیں جانتا” آپ کو سوال پوچھنے، مشورہ لینے اور مسلسل سیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آپ کو دوسروں سے آگے رکھتی ہے، چاہے وہ آپ کا کاروبار ہو یا آپ کی ذاتی زندگی۔ اس سے نہ صرف بہتر فیصلے ہوتے ہیں بلکہ ایک بھروسے کا ماحول بھی بنتا ہے جہاں سب مل کر کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو طویل مدت میں آپ کو واقعی بڑی کامیابی دلا سکتی ہے۔